ریمانڈ اور اس کا طریقہ کار
ریمانڈ سے متعلق تفصیلات جاننے کے لئے ضابطہ فوجداری کی دفعات61، 167 اور344 کا مطالعہ ضروری ہے۔ اس کے ساتھ دفعہ62 اور دفعہ173 کا بھی مطالعہ کرنا چاہئے۔
ریمانڈ کے لفظی معنی واپس بھجوانا ہے۔ فوجداری مقدمات میں ملزم کو پھر حوالات بھیجنا مگر پولیس کے تشدد کی وجہ سے یہ اطلاع بڑی خطر ناک بن چکی ہے۔ جب کوئی شخص گرفتار ہوتا ہے تو پولیس اس کو چوبیس گھنٹے کے اندر مجسٹریٹ کے پاس پیش کرنے کی پابند ہوتی ہے اور مزید عرصے کے لئے زیر حراست رکھنا مطلوب ہو تو پولیس مجسٹریٹ سے تحریری حکم حاصل کرتی ہے اس درخواست کو ریمانڈ کی درخواست کہتے ہیں۔ اگر پولیس24 گھنٹے کے اندر ملزم کو عدالت میں پیش نہیں کرتی اور مزید مناسب حکم حاصل نہیں کرتی تو 24 گھنٹے سے بعد کی حراست غیر قانونی شمار ہوگی۔
(PLD 1960 Pesh 74)
عام طور پر ریمانڈ کی درخواست علاقہ مجسٹریٹ کو دی جاتی ہے تاہم ناگزیر صورت میں ریمانڈ کی درخواست کسی بھی مقامی مجسٹریٹ کو دی جا سکتی ہے۔ مجسٹریٹ جس کے روبرو کسی ملزم کو بغرض ریمانڈ پیش کیا جائے زیادہ سے زیادہ پندرہ دن کا ریمانڈ دے سکتا ہے۔ ہائی کورٹ رولز میں بھی ریمانڈ کے متعلق احکامات اور ہدایات دی گئی ہیں۔ ریمانڈ کی درخواستوں میں قانون یہ ہے کہ مجسٹریٹ کو ملزم کے وکیل یا اسکے رشتہ داروں کو یہ حق دینا چاہئے کہ اگر وہ Remand کے خلاف ملزم کی طرف سے عذرات پیش کرنا چاہتے ہیں تو کر سکتے ہیں۔ ہائی کورٹ کے قواعد میں درج ہے کہ مجسٹریٹ کو لازم ہے کہ وہ ملزم کو وکیل رکھنے کا موقع دے تاکہ وہ وکیل ریمانڈ کے خلاف عذرات پیش کر سکے۔
مجسٹریٹ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس بات کا تعین کرے کہ آیا ملزم کا پولیس کے قبضہ میں دیا جانا ضروری ہے یا نہیں۔اگر مجسٹریٹ محسوس کرے کہ ملزم کو پولیس کی حراست میں مزید رکھنا ضروری نہیں ہے تو وہ ریمانڈ کا حکم صادر کرنے سے انکار کر سکتا ہے۔
(PLD 1979 Lah 587)
وہ ملزم جس کے خلاف مقدمہ زیر تجویز ہو ریمانڈ پر صرف پولیس اسٹیشن میں رکھا جا سکتا ہے کسی اور جگہ نہیں ورنہ یہ اقدام غیر قانونی ہوگا۔ریمانڈ کے لئے ضروری ہے کہ ملزم کو مجسٹریٹ کے روبرو حاضر کیا جائے۔ مجسٹریٹ کا خود مقامنظر بندی تک جانا غیر قانونی ہے۔
(PLD 1965 Lah 336)
ملزم کے رشتہ داروں کو دوران ریمانڈملزم کو کھانا یا لباس مہیا کرنے سے بھی منع نہیں کیا جا سکتا۔
ریمانڈ دو طرح کا ہوتا ہے۔
1۔ جسمانی ریمانڈ (Physical Remand)
جسمانی ریمانڈ کا مطلب یہ ہے کہ گرفتار شدہ ملزم تھانہ میں زیر حراست رہتا ہے۔ مجسٹریٹ اگر اس نتیجے پر پہنچے کہ پولیس کو بر آمدگی وغیرہ یا کسی اور مقصد کے لئے ملزم کے جسم کی ضرورت ہے تو وہ ملزم کا جسمانی ریمانڈ وقتاً فوقتاً پولیس افسران کو دیتا رہے گا۔ لیکن اس ریمانڈ کی مجموعہ تعداد پندرہ دن سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔ اس جسمانی ریمانڈ کی وجہ بھی لکھی جائے گی۔ریمانڈ دینے لا طریقہ یہ ہوگا کہ ایک تو جسمانی ریمانڈ زیادہ دنوں کے لئے نہ دیا جائے گا اور شاید ہی کبھی پندرہ دن کا ہوا ہو۔
اس جسمانی ریمانڈ کا مطلب بھی پولیس کی چھترول سمجھا جاتا ہے حالانکہ قانون کا یہ منشا ہر گز نہ ہے۔مگر تفتیش کا مطلب مار پٹائی کے سوا ہمارے ملک میں اور کچھ نہیں ہوتا۔ پولیس جس طرح دوران ریمانڈ ملزم کے ساتھ سلوک کرتی ہے وہ مہذب قوموں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ اس رویے کی بناء پر پولیس کو خوف اور نفرت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ گرفتار شدہ شخص کے دوست، رشتہ دار صرف اس بات کے لئے پولیس کو بھاری رقوم دیتے ہیں کہ وہ جسمانی ریمانڈ نہ لے بلکہ جوڈیشل ریمانڈ لے اور مدعی پارٹی پولیس کو بھاری رقم اسلئے دیتی ہے کہ وہ دوران ریمانڈ ملزم پر جسمانی تشدد کرے۔ گرفتار ملزم پر اگر دوران حراست تشدد کیا گیا ہے تو علاقہ مجسٹریٹ سے میڈیکل کرانے کا حکم حاصل کیا جا سکتا ہے تاکہ پولیس کی طرف سے کیا گیا تشدد ثابت ہونے پر پولیس کے خلاف کاروائی کی جا سکے۔
2۔ جوڈیشل ریمانڈ (Judicial Remand)
جوڈیشل ریمانڈ کا مطلب ملزم کو جیل بھجوانا ہوتا ہے۔ اگر پولیس آفیسر استدعا کرے کہ تفتیش مقدمہ مکمل ہے یا مزید تفتیش کی ضرورت نہ ہے تو مجسٹریٹ ملزم کو عدالتی ریمانڈ(Judicial Remand) پر جیل بھجوا سکتا ہے۔
ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اگر تفتیشی افست مزید ریمانڈ جسمانی کی استدعا کرے تو مجسٹریٹ مزید ریمانڈ جسمانی(Physical Remand) کی اجازت دینے سے انکار کرتے ہوئے ملزم کو عدالتی ریمانڈ پر جیل بھجوا سکتا ہے۔ اس کے لئے مجسٹریٹ چند امور کو مد نظر رکھے گا۔
1۔ مجسٹریٹ اگر مناسب سمجھے کہ تفتیش مقدمہ مکمل ہے۔
2۔ مجسٹریٹ اگر مناسب سمجھے کہ مزید تفتیش کی غرض سے جسمانی ریمانڈ دینا مناسب نہیں ہے۔
3۔ ملزم کے خلاف بظاہر کوئی مقدمہ نہ بنتا ہو۔
4۔ تمام بر آمدگیاں مکمل ہو چکی ہوں۔
جسمانی ریمانڈ سے متعلق ہائی کورٹ کی ہدایات یہ ہیں کہ اسے بہت ہچکچاہٹ کے ساتھ منظور کرنا چاہئے اور تھوڑے تھوڑے دن کے لئے کرنا چاہئے۔ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 167 اس بابت تفصیل فراہم کرتی ہے۔ عام لوگ چونکہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ریمانڈ کی منظوری اور نا منظوری پولیس کی مرضی پر منحصر ہے اسلئے کوئی بھی ریمانڈ کے مرحلہ پر کسی وکیل سے رجوع نہیں کرتا۔ پولیس کے ٹاؤٹوں سے کام چلایا جاتا ہے حالانکہ ریمانڈ کے مرحلہ پر وکیل بحث کرکے مندرجہ ذیل قسم کے احکام حاصل کر سکتا ہے۔
1۔ جسمانی ریمانڈ کی بجائے جوڈیشل ریمانڈ کیا جائے۔
2۔ ملزم کی ضمانت لے لی جائے۔
3۔ ملزم کے خلاف ثبوت نہیں ہے اسکو رہا کر دیا جائے اس بابت درج ذیل Rulings قابل ملاحظہ ہیں۔
PLD 1987 Lah 2436, NLR 1984 Criminal 39 – 1989 Pcr Lj 1993, 1989 Pcr Lj 2241
وکیل صاحب یہ عذر بھی لے سکتے ہیں کہ جسمانی ریمانڈ کم دنوں کا دیا جائے۔ یہ بھی عام مشاہدہ ہے کہ گرفتار شدہ لوگوں کے وارث اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ ریمانڈ کے متعلق معاملات میں وکیل کوئی دخل نہیں دے سکتا اسی لئے وہ پولیس کے دلالوں کو ہزاروں روپے صرف اتنی سی رعایت کے لئے دے دیتے ہیں کہ جسمانی ریمانڈ نہ لیا جائے۔ سادہ لوح لوگوں کی غلط فہمی اور قانون سے لا علمی کی وجہ سے پولیس کے لئے کرپشن کے کئی دروازے کھل جاتے ہیں۔ اس بابت تدارک کے لئے وکلاء اور عدلیہ کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
غیر قانونی ریمانڈ
دفعہ 167 ض۔ف کے مطابق عدالت کو ریمانڈ دینے کی وجوہات اپنے حکم میں لکھنا ہوتی ہیں۔اسکا بہترین حل یہ ہے کہ آپ جو عذرات پیش کرنا چاہتے ہیں وہ تحریری درخواست کے زریعے ریمانڈ کے وقت پیش کردیں۔ کوئی بھی جوڈیشل مجسٹریٹ ان عذرات کو نہ تو پھاڑے گا اور نہ ان کو نظر انداز کرے گا یعنی حکم میں اگر ان کا ذکر نہ کرے گا تب بھی قابل مواخذہ ہوگا اور اگر ان عذرات کی تردید میں بھی کچھ نہیں لکھے گا تب بھی جوابدہ ہوگا۔ ہائی کورٹ کو بڑی سختی کے ساتھ ایسے مجسٹریٹ صاحبان کی گرفت کرنی چاہئے جو ہائی کورٹ کے قواعد و ہدایات اور سکرول کو نظر انداز کریں۔ اب قانون میں ترمیم کرکے یہ حکم بھی ہو چکا ہے کہ ہر ریمانڈ کی نقل سیشن جج صاحب کو بھیجی جائے (1989 Pcr Lj 1993) میں ہائی کورٹ کو یہ واضح ہدایات ہیں کہ سیشن ججز صاحبان پر لازم ہے کہ وہ ناجائز قسم کے احکام ریمانڈ سے متعلق ہائی کورٹ کو رپورٹ بھجوائیں۔ بہر حال جب بھی کوئی متاثرہ فریق محسوس کرے کہ مجسٹریٹ صاحب نے ریمانڈ منظور کرتے ہوئے قانون کے مطابق عمل نہیں کیا تو فوراً اس کی نقل لے کر سیشن عدالت میں نگرانی دائر کر سکتے ہیں۔ اگچہ ایسی نگرانی کوئی زیادہ فائدہ مند نہیں ہوگی لیکن مجسٹریٹ صاحب سے حکم ریمانڈ کی بابت جواب طلبی ہو سکتی ہے۔
ایسے کئی فیصلے ہیں جن میں صرف ریمانڈ کے خلاف ہدایات دینے پر مجسٹریٹ صاحب کی جوابدہی ہوئی۔ اگر ایسی صور ت درپیش ہو تو براہ راست ہائی کورٹ میں بھی درخواست زیر دفعہ 491 ض۔ف دی جا سکتی ہے کہ ریمانڈ ہائی کورٹ کی ہدایات کے کلاف منظور کیا گیا ہے اسلئے حراست ملزم ناجائز اور نامناسب ہے۔ ایسی صورت میں ملزم زیر ریمانڈ کو رہا کردیا جائے گا۔
(NLR 1980 (Uc) 74 Lah)
491 ضابطہ فوجداری Illegal Custody اورImproper Custody دونوں صورتوں میں ہائی کورٹ مداخلت کرتی ہے۔جب ریمانڈ جوڈیشل کی بجائے جسمانی دیا گیا ہو تو اسے Illegal نہ سہی Improper Custody کہا جا سکتا ہے اور491 ضابطہ فوجداری چونکہ سستا قانونی حربہ ہے اس سے فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے۔ ریمانڈ کے دوران بھی ملزم کو قانوناً یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ اس کے دوست احباب اور وکیل اس سے ملاقات کریں اور اس کوقانون کے مطابق صحیح مشورہ دیں۔ملزم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ: (Accused is the Favourite Child of Law) اسلئے یہ تمام سہولیات قانون کے مطابق ملزم کو ملنی چاہئیں۔
٭ قانونی تقاضہ یہ ہے کہ ملزم کو تھانے کی عمارت میں رکھا جائے۔ کئی تھانیدار تشدد کرنے کے لئے پرائیویٹ مکان حاصل کرکے ملزموں کو ایسے پرائیویٹ مکانوں میں رکھتے ہیں جو سراسر غیر قانونی ہے۔اس کے علاوہ ان کو بھی جن کی گرفتاری ریکارڈ میں موجود نہیں ہوتی انہیں بھی ایسے ٹارچر سیلز میں رکھا جاتا ہے۔ لہذاایسے مکانوں پر چھاپہ ڈلواکر تھانیدار کے خلاف پرچہ درج کروایا جا سکتا ہے۔
CIA کا دفتر تھانہ نہیں ہوتا،اسی طرح کرائم برانچ کا دفتر بھی تھانہ نہیں ہوتا اسلئے ملزمان کو سی آئی اے کے دفتر میں رکھنا خلاف قانون سمجھا جائے گا۔
(PLD 1965 Lah 324) (PLD 1995 Lah 606)
منطقی طور پر یہ بات سمجھ لینی آسان ہے کہ جب قانون نے ملزم کو یہ حق دیا ہے کہ وہ گرفتاری کے بعد اپنے گھر سے بستر اور کپڑے منگوا سکتا ہے، دوست احباب اور وکلاء سے ملا قات کر سکتا ہے تو یہ سب قانونی حقوق ایسی حالت میں کیونکر پورے ہونگے جب ملزم کو کسی خفیہ مقام پر پابند رکھا جائے۔
ہائی کورٹ کے بیلف 491 ضابطہ فوجداری کی درخواستوں پر چھاپہ مارتے ہیں تو سب سے پہلے وہ روز نامچہ قابو کرتے ہیں جہاں رپٹ گرفتاری عموماً لکھی ہوئی نہیں ہوتی بلکہ تھانیدار بیلف کے چھاپے کے بعد کسی مقدمے کی ضمنی میں گرفتاری کا ذکر کر دیتا ہے۔تھانے کے روز نامچے کا رجسٹر سب سے زیادہ قابل اعتبار ریکارڈ ہوتا ہے اسمیں ردو بدل آسان نہیں ہوتا۔
مجسٹریٹ کا فرض
ریمانڈ منظور کرتے وقت مجسٹریٹ کے لئے مندرجہ ذیل ہدایات کی پابندی لازمی ہے۔
1۔ ریمانڈ کا حکم کھلی عدالت میں دیا جائے۔
2۔ ریمانڈ دینے سے پہلے مجسٹریٹ پولیس کی لکھی ہوئی ضمنیوں کی پڑتال کرے اور اس بات کا اطمینان کرے کہ ملزم کی گرفتاری کے لئے معقول اور ٹھوس وجوہات ضمنی میں موجود ہیں۔
3۔ ملزم یا اسکے وکیل یا دوست رشتہ دار وں کے اعتراضات کی سماعت کرے، ان اعتراضات کو لکھے اور ان وجوہات کو بھی لکھے جن کی بناء پر وہ جسمانی ریمانڈ لینا قانوناً ضروری سمجھتا ہے۔
4۔ مجسٹریٹ کا فرض ہے کہ وہ ملزم سے پوچھے کہ آیا اس پر تشدد تو نہیں کیا گیا اور اگر وہ تشدد کی شکایت کرے تو اس کا ڈاکٹری ملاحظہ / معائنہ کروائے۔ یہ ڈاکٹری معائنہ میڈیکل بورڈ کرے گا۔
یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ ملزم کو گرفتار ہوتے ہی ضمانت کی درخواست دینے کا حق حاصل ہو جاتا ہے اسلئے لوگوں میں یہ غلط فہمی دور کرنے کی ضرورت ہے کہ ریمانڈ کی مدت جب تک ختم نہ ہو ضمانت نہیں ہو سکتی۔ سادہ سی بات ہے کہ جب ملزم گرفتاری سے پہلے بھی قبل از گرفتاری ضمانت کروانے کا حق رکھتا ہے تو گرفتاری کے بعد وہ حق کیونکر چھینا جا سکتا ہے۔ تمام قانونی تقاضے پورے کرنا عدالت کا، وکلاء کا اور پولیس کا فرض ہے تاکہ انصاف کی فراہمی ممکن ہو سکے اور معاشرہ صحیح خطوط پر استوار ہو سکے۔
خواتین کا ریمانڈ اور تفتیش
1۔ گرفتار خواتین کی تفتیش ملزمہ کے دو مرد اور ایک خاتون رشتہ داروں کے سامنے اورموجودگی میں کی جائے گی یا معززین علاقہ کے روبرو تفتیش کی جائے گی۔
2۔ خواتین کی گرفتاری کے بارے میں سپیشل رپورٹ سرخ لفافہ میں افسران بالا کو بھجوائی جائے گی۔
3۔ اگر ریمانڈ جسمانی کے لئے خاتون ملزمہ کو عدالت میں پیش کرنا مقصود ہو تو گزٹیڈ آفیسر پیش کرنے کا پا بند ہے۔
4۔ اگر خاتون ملزمہ کو حراست میں رکھنا مقصود ہے تو زنانہ حوالات میں رکھا جائے گا تاکہ حیاء داری اور پردا داری کا خیال رکھا جائے۔
5۔ اگر عورت ملزمہ کو موقع کی نشاندہی یا شناخت کے لئے کسی گاؤں میں لے جانا ہو تو اس عورت کے رشتہ دار یا نمبر دار یا معزز ہمسایہ اس عورت کے ساتھ جائے گا۔
6۔ زنانہ پولیس کی موجودگی یقینی بنائی جائے گی۔
7۔ فوجداری قوانین میں اب ترمیم کی گئی ہے دفعہ(156B) ضابطہ فوجداری کے تحت عورت ملزمہ اسلامک لاء میں سپرٹینڈنٹ آف پولیس تفتیش مقدمہ کرنے کا مجاز ہے۔
جہاں دیوانی دعویٰ زیر تجویز ہو
جوڈیشل مجسٹریٹ محض کسی دیوانی دعویٰ کے زیر تجویز ہونے کی بناء پر ملزم کا جسمانی ریمانڈ دینے سے انکار کر سکتا ہے۔
(2012 Pcr Lj 285 Lahore)
مقدمے کی دوبارہ تفتیش
کسی بھی مقدمہ میں جب پولیس تفتیش مکمل کرکے اپنی حتمی رپورٹ داخل کردے تو پولیس کے پاس دوبارہ تفتیش کا اختیار نہیں رہتا۔ پولیس کی جمع شدہ تمام شہادت عدالت کے سامنے رکھ دی جاتی ہے کہ وہ ملزم شخص کے معصوم یا مجرم ہونے کی بابت فیصلہ کرے۔
(2015 Pcr Lj 1436 (A) Lahore)
عبوری/ راہداری ریمانڈ Transit Remand
ضابطہ فوجداری کے سیکشن 86 میں عبوری/ راہداریریمانڈ کے بارے میں تفصیلات موجود ہیں۔
ریمانڈ کی کاروائی میں ملزم قانونی معاونت کا مستحق ہے۔
ریمانڈ کی کاروائی میں یہ مجسٹریٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملزم کو اجازت دے کہ وہ قانونی معاونت حاصل کرے۔ وہ اپنا وکیل مقرر کر سکتا ہے اسکے علاوہ ریاست پابند ہے کہ اس مرحلے پر اُ سے فری قانونی سروس فراہم کرے۔
(Air 1981 Sc 928) (1981 Scc (Cri) 228)
(Air 1977 Sc 1979)
٭ ریمانڈ محض اس توقع پر نہیں دیا جا سکتا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ملزم کا قصور ظاہر ہو جائے گا۔
(2005 YLR 915)
یہ انتہائی ضروری ہے کہ ملزم کو عدالت کے روبرو پیش کیا جائے۔ عدالت اس بات کی پابند ہے کہ وہ ملزم کے ریمانڈ کی صرف ان شہادتوں کی بنیاد پر اجازت دے جو اس کے روبرو پیش کی گئی ہوں۔ ریکارڈ کو ملاحظہ کرنے کی عدالت کی ذمہ داری اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب پہلے ریمانڈ کی مدت کے خاتمے پر دوبارہ ریمانڈ کے لئے درخواست پیش کی جاتی ہے۔ کئی ایسے واقعات بھی منظر عام پر آتے ہیں جب اعلیٰ عدلیہ ملزم کو عدالت میں پیش کئے بغیر یا ریکارڈ کا حوالہ دیئے بغیر ریمانڈ کی ضروری کاروائی مکمل کرنے پر مجسٹریٹ اور پولیس دونوں کی سرزنش کرتی ہیں۔
مختلف Citations
ملزم کے خلاف زیر سماعت کاروائی میں دفعہ 167 کی شرائط پر عملدر آمد کرنا ضروری ہے خواہ ایسے مقدمات بعد ازاں خصوصی عدالتوں میں منتقل کئے جاتے ہوں۔
(PLD 1996 kar 517)
مجسٹریٹ اور پولیس افسران کے منصب و فرائض کا احاطہ کیا گیا جو زیر دفعات344, 173, 167, 62, 61 ضابطہ فوجداری ان پر عائد ہوتے ہیں اور جن پر وہ عملدر آمد کرنے میں اجتناب کرتے ہیں جسکی وجہ سے ملزمان کی حراست غیر قانونی قرار پاتی ہے۔
(PLD 1996 Kar 517)
دفعہ61 اور دفعہ167 ض۔ف کا مقصد یہ ہے کہ گرفتار کردہ شخص کو ممکنہ عجلت کے ساتھ مجسٹریٹ کے روبرو پیش کیا جائے۔
(Air 1924 Cal 476(DB))
ملزم کو جب بلا وارنٹ گرفتار کیا جائے تو اسکی نظر بندی کی مدت 24 گھنٹے سے زائد نہیں ہونی چاہئے۔ اس مدت کے پورا ہونے پر اسے مجسٹریٹ کے روبرو پیش کرنا چاہئے جو اس سلسلے میں ریمانڈ کا حکم صادر کر سکتا ہے جو15 دن سے زائد نہیں ہونا چاہئے۔ ریمانڈ کا حکم بلا سوچے سمجھے صادر نہیں کرنا چاہئے۔مجسٹریٹ کو چاہئے کہ ریمانڈ کا حکم صادر کرنے سے قبل وہ اس امر پر جائزہ لے کہ آیا حکم ریمانڈ کے لئے وجوہات موجود ہیں یا نہیں۔
(1997 Pcr Lj 1204)
ریمانڈ کا حکم صادر کرتے وقت مجسٹریٹ کو دفعات167, 61 اور344 ض۔ف کو پیش نظر رکھنا چاہئے اور اندفعات کی شرائط پر سختی سے عمل پیرا ہونا چاہئے۔
(1997 Pcr Lj 1204)
ریمانڈ کا حکم محض مشینی انداز میں نہیں ہونا چاہئے بلکہ مجسٹریٹ کو معقول وجوہات کی بناء پر ایسا حکم صادر کرنا چاہئے۔
(1997 Pcr Lj 1204)
دفعہ344 ض۔ف کے عدم اطلاق کی بناء پر ملزم کی حراست غیر قانونی پائے گی۔ ملزم کی جیل میں حراست کی مجاز عدالت کا حکم حاصل کئے بغیر واضح طور پر غیر قانونی ہوگی۔
(1997 MLD 2101)
عدالت کے کلرک کی طرف سے صادر شدہ حکم ریمانڈ نہ صرف غیر مجاز ہوگا بلکہ غیر قانونی ہوگا لیکن اس نے ایسا حکم صادر کرنے سے پہلے انتہائی احتیاط بر تی اور ملزم کا ریمانڈ حاصل کرنے کے لئے وہ تمام اقدامات کئے جو اس کے دائرہ اختیار میں تھے اور اس سلسلے میں مجاز اتھارٹی سے رجوع کیا اور ٹریفک مجسٹریٹ سے بھی ٹیلی فون کے زریعے رجوع کیا اور ان کی ہدایات پر ملزم کو حوالات میں جوڈیشل میں بھیج دیا۔ ان حالات میں چونکہ (کلرک آف کورٹ)سے کوئی بد نیتی یا عنار منسوب نہیں کیا جا سکتا اسلئے ہائی کورٹ کے حکم پر شروع کی گئی محکمانہ کاروائی قانون کی رو سے جائز نہ تھی۔
(1997 MLD 2041)
عدالت سماعت نے ملزم کو ریمانڈ پر زیر حراست رکھنے کا حکم جاری کرنے کے بعد مقدمہ کو بلا تاریخ مقرر کئے ملتوی کردیا اور بعد ازاں نہ ہی اسکے ریمانڈ کے لئے کوئی درخواست دی گئی اور نہ ہی اسے عدالت میں پیش کیا گیا اس طرح ملزم کو جیل میں عدالت کا حکم زیر دفعہ344 ضابطہ فوجداری حاصل کئے بغیر رکھنا خلاف قانون تھا چنانچہ ملزم کو ضمانت پررہا کرنے کا حکم صادر کیا گیا۔
(1997 MLD 2101) (1992 Pcr Lj 357)
(1
0 comments:
Post a Comment